پاکستان (اولس نیوز) افغان طالبان میدانِ سیاست میں ہر سمت شاٹ کھیل کر دنیا کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جسے اب تک رسمی طور پر تسلیم تو نہیں کیا گیا، مگر اس کے باوجود کئی ممالک اس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور ہیں۔ وہ ممالک بھی جو طالبان حکومت سے شدید تحفظات رکھتے ہیں، اب اس کے قریب ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔حال ہی میں افغانستان کے تمام صوبوں کے گورنرز کے اجلاس میں تعلیم سمیت کئی اہم امور پر خصوصی بحث ہوئی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان حکومت داخلی سطح پر استحکام کی جانب پیش رفت کر رہی ہے۔ دوسری جانب ماسکو میں افغانستان پر ماسکو فارمیٹ اجلاس میں شریک ممالک نے ایک بار پھر آزاد، متحد اور پرامن افغانستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ روسی وزارتِ خارجہ کے مطابق اجلاس میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ اور کثیرالملکی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔شرکا نے واضح کیا کہ افغانستان اور خطے میں کسی بیرونی فوجی ڈھانچے کا قیام ناقابلِ قبول ہے، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار اپنے وعدے پورے کریں تاکہ بحالی و ترقی کا عمل ممکن ہو۔ اجلاس میں زور دیا گیا کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے پائے، اور افغانستان کو علاقائی روابط کے نظام میں فعال کردار دیا جائے۔اجلاس میں پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران، قازقستان، چین، کرغزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی، جبکہ بیلاروس نے بطور مہمان شرکت کی۔ قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی پہلی بار بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے۔ان تمام نکات کی روشنی میں ایک بات واضح ہے کہ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرِنو جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدشات اور مسائل کھلے انداز میں سامنے لائے اور پھر ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، پاکستان نہ صرف خطے میں بہتر مواقع سے محروم ہوسکتا ہے بلکہ اقتصادی و سفارتی اعتبار سے بھی نقصان اٹھا سکتا ہے۔
پاکستان کو افغانستان کے ساتھ مسائل حل کیے بغیر خطے میں بہتر مواقع حاصل نہیں ہوسکتے
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل




