میں انسٹیٹیوٹ آف سڑیٹیجک سٹڈیز اسلام آباد کے وفد کے ہمراہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) شنگھائی میوزیم میںموجود تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے درو دِیوار سانس لے رہے ہیں اوردھیمے دھیمے لہجے میں سی پی سی کی جدوجہد کی طویل داستان سنا رہے ہیں۔یوں لگ رہا تھا جیسے چینی تاریخ سی پی سی میوزیم کے ہر گوشے ، ہر دیوار اور ہر تصویر میں زندہ ہے اورمحو ِ گفتگو ہے۔ میوزیم محض سو سالہ تاریخ کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک داستان ہے جس میں اِنقلابی جذبے کی گونج آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ میوزیم میں تاریخ اور جذبوں کا ایک خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔انتہائی احتیاط اور سلیقے سے نمائش کے لیے رکھے نوادرات ، تاریخی اہمیت کے خطوط ، اخبارات، ملاقاتوں کی تفصیلات ، خطاطی کے شاہکار اور اہم رہنمائوں کی خوبصورت پورٹریٹس ایک مکمل داستان ہے۔ میوزیم کا ڈیزائن اور فن تعمیرایسا ہے لگتا ہے کہ سی پی سی کا اِنقلابی سفر آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔
میوزیم میں ہر کوئی اْس تحریک کو محسوس کرتا ہے جو شنگھائی میں کچھ پْر اْمید اور ہم خیال لوگوں کے ایک مختصرگروہ کے ساتھ شروع ہوئی اور قوم کو ایک نئی سمت دے گئی۔ میوزیم تحریک کی وڑن ، عزم و ہمت اور ثابت قدمی کییادگار اورایک ایسی پارٹی کا ثقافتی نشان ہے جو اپنے ماخذ پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ارتقائی عمل سے گذری۔ شنگھائی میوزیم کی بولتی راہداریاں اِس بات کو ثبوت ہیں کہ اِنقلابی رہنمائوں، کارکنوں اور عام شہریوں نے کس جانفشانی سے چین کی تبدیلی کے طویل اور ہنگامہ خیز سفر میں حصہ ڈالا۔ایک تاریخی عمارت سے زیادہ سی پی سی میوزیم قومییادوں کا ایک مجموعہ ہے، جہاں آنے والے سیاح یہ پیغام لے کر جاتے ہیں کہ افراد کیسے قوموں کی زندگی میں کردار ادا کرتے ہیں۔
سی پی سی کی بنیاد رکھنے والا پہلا اِجلاس جو 23 جولائی 1921ء کو شنگھائی میں منعقد ہوا میوزیم کا اہم حصہ ہے۔ یہ اجلاس نہ صرف چین کی سیاسی تاریخ کا ایک انقلابی سنگ ِمیل تھا بلکہ اس کی پراسراریت نے اْسے ایک افسانوی شکل دے دی۔ اْس وقت چین سامراجی قبضے اور خانہ جنگی کے زخم سہہ رہا تھا اور نوجوان انقلابی ذہنوں میں ایک نئے چین کا خواب پل رہا تھا۔ کسی ایسے ہی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سی پی سی کے 13 بانی ارکان خفیہ طور پر جمع ہوئے۔یہ اِجلاس ابتداء میں شنگھائی کے ایک مکان میں ہوا جو میوزیم کا حصہ ہے۔ اگرچہ سخت رازداری برتی گئی اور ہر شریک راہنما نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے کوڈ نام استعمال کیا لیکن اِجلاس کے دوسرے دِن غیر ملکی سامراجی اہلکاروں کو اِس خفیہ سرگرمی کی خبر مل گئی۔ خطرہ محسوس کرتے ہوئے رہنمائوں نے اچانک اِجلاس کا مقام تبدیل کیا اور ایک انتہائی غیر معمولی جگہ کا انتخاب کیا گیا اور شنگھائی کے قریب ایک پرسکون جھیل کے وسط میں ایک کشتی پر اِنقلابی تحریک کا سنگ ِبنیاد رکھا گیا۔
کشتی پر ہونے والا یہ اجلاس علامتی اور پراسرار تھا۔ اِس چھوٹی سی کشتی میں بیٹھے چند نوجوان اْس وقت خود بھی نہیں جانتے تھے کہ اْن کی گفتگو چین کی تقدیر بدل دے گی۔ غیر ملکی طاقتوں کی نگرانی سے بچنے کے لیے اْنھیں رات کے اندھیرے میں کشتی میں منتقل کیا گیا۔ کشتی میں ہونے والی بحث و تمحیص نے ایک ایسے نظریے کو جنم دیا جو اگلی کئی دہائیوں تک چین کی سیاست کی بنیاد بنا۔اِس اجلاس کی پراسراریت اِس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ کئی سال بعد بھی اِس کے مقام اور تفصیلات پر بحث جاری رہی۔ شرکاء کی مکمل فہرست اور اجلاس کی تفصیلات آج بھی محققین کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ ایک چھوٹی سی کشتی سے شروع ہونے والا خواب تھا جو ایک ارب سے زائد لوگوں کی تقدیر کا نقشہ بدل گیا۔سی پی سی دْنیا کی اِن چند سیاسی جماعتوں میں سے ہے جنہوں نے ایک صدی کی طویل اور پْرعزم جدوجہد کے بعد اپنی قوم کو جدید ترقی، خودمختاری اور عالمی اثرورسوخ کے بلند مقام تک پہنچایا۔ مائوزے تنگ، چو این لائی، اور دیگر رہنمائوں نے کسانوں اور محنت کش طبقے کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا۔ 1934ء کا لانگ مارچ اِس جدوجہد کی علامت ہے جب سی پی سی کے ہزاروں کارکن پہاڑوں اور دریائوں کو عبور کرتے ہوئے دشمن کے محاصرے سے نکلے۔ یہ قربانی اور عزم کا وہ باب تھا جس نے پارٹی کو ایک نظریاتی قوت میں بدل دیا۔ بالآخر 1949ء میں مائوزے تنگ نے بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا، جو صدیوں کی غلامی سے آزادی کی علامت بنا۔
سی پی سی میوزیم میں خوبصورتی سے سجائی تاریخ قربانی اور اِنقلابی جذبے کی ایک صدی پر محیط داستان ہے اور ایک طویل سفر کی کہانی ہے۔ ہماری راہ نمائی کے لیے ایک نہایت پیشہ ور ٹور گائیڈ موجود تھی جو بہت خوبصورتی اور مہارت سے تاریخی واقعات بیان کر رہی تھی۔
سی پی سی میوزیم کا دورہ ایک مسحور کن تجربہ تھا۔ جب میں اِس کے مختلف حصوں سے گذر رہا تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں وقت کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہوں اور ایک ایسی تحریک کے ارتقاء کا مشاہدہ کر رہا ہوں جس نے ایک قوم کی تشکیل کی۔ چین نے اپنے انقلابی ورثے کو احتیاط اور سلیقے سے سنبھالا ہے۔سی پی سی کی سو سالہ جدوجہد قربانی، نظم و ضبط، اور عوامی خدمت کی روشن مثال ہے۔ یہ کہانی صرف چین کی کامیابی نہیں بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظریے، عزم، اور قیادت سے کسی قوم کو عالمی صفِ اول میں لایا جا سکتا ہے۔ سی پی سی کی تاریخ ہمیںیہ سبق دیتی ہے کہ مشکلات چاہے کتنی ہی بڑی ہوں، اتحاد اور عوامی طاقت سے قومیں ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔
شنگھائی میوزیم کی راہداریوں میں چلتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت اپنی سانسیں روک کر کھڑا ہے اور صدیوں پرانے راز افشا ہو کر گوشیوں میں ڈھل رہے ہیں۔ پتھر پر کندہ تحریروں، مٹی کے برتنوں اور سو سالہ پرانی تصویروں میں تاریخ کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ یہ عمارت صرف نوادرات کا ذخیرہ نہیں بلکہ تہذیبوں کا ایک آئینہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اِنسان نے کس طرح ایک سفر میں اپنے خواب، جدوجہد اور محبت کو امر کر دیا۔ ہر مجسمہ ایک کہانی سناتا ہے اور ہر کینوس وقت کے زخموں اور خوشبوئوں کو سمیٹے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی دِل میں ایک عجیب سی بے خودی اْترتی ہے جیسے ہم تاریخ کے کسی دلکش مقام پر آ گئے ہوں جہاں قدموں کی چاپ ماضی کی صدا بن کر گونجتی ہے اور ہر گیلری ہمیںیاد دلاتی ہے کہ تہذیبیں فنا نہیں ہوتیں بلکہ وہ خاموشی سے ہمیں دیکھتی رہتی ہیں۔ شنگھائی میوزیم اپنی سرگوشیوں میں بتاتا ہے کہ تاریخ کوئی پرانا قصہ نہیں ہے بلکہ ہمارے حال کی بنیاد اور مستقبل کا آئینہ دار ہے جو آنے والی نسلوں کو خوابوں کی تعبیریں اور دانش کی روشنی دیتا ہے۔
شنگھائی میوزیم!جہاں تاریخ سرگوشیاں کرتی ہے




