نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، جس کی صدارت اسپیکر بابر سلیم سواتی کر رہے ہیں۔ اجلاس کے آغاز میں علی امین گنڈاپور سے ایوان سے خطاب کیا۔ جبکہ اپوزیشن نے انتخابی عمل کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے موقع پر آج کا اجلاس شدید ہنگامہ خیزی کا شکار رہا۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور، ارکانِ اسمبلی اور حزبِ اختلاف کے درمیان گرماگرمی دیکھی گئی۔
علی امین گنڈاپور نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل کا مذاق نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں سہیل آفریدی کو ایڈوانس میں مبارکباد دیتا ہوں، وہ وزیراعلیٰ ہوں گے، انہیں ہر طرح کی حمایت حاصل ہوگی۔‘
گنڈاپور نے کہا کہ ’فسطائیت کے خلاف جو جنگ ہم نے لڑی، اس میں ہم سرخرو ہوئے، 18 ماہ میں جو کچھ کیا وہ ریکارڈ پر ہے، 280 ارب روپے خزانے میں پڑا ہے۔ میری کارکردگی سب کے سامنے ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں، وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر توجہ دے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ہماری جدوجہد پاکستان کے لیے جاری رہے گی۔‘
اپوزیشن کا واک آؤٹ
دوسری جانب، اسمبلی میں ڈاکٹر عباداللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں استعفیٰ منظور کرنے کا ایک واضح طریقہ کار ہے، آج مجھے گورنر ہاؤس سے خط موصول ہوا ہے جس میں واضح کیا گیا کہ علی امین گنڈاپور دو بار استعفا دے چکے ہیں۔‘
ڈاکٹر عباداللہ کے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے ارکان کی نعرے بازی شروع ہوگئی، جس پر اسپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ لوگ کون ہوتے ہیں کسی رکن کو بولنے سے روکنے والے؟ مجبور نہ کریں کہ آپ سب کو ایوان سے باہر نکال دوں۔‘
اس کے بعد ڈاکٹر عباداللہ نے مزید کہا کہ ؛’علی امین گنڈاپور اگر اتنی اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے تو انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ ایک حکومت کے ہوتے ہوئے دوسری وزارتِ اعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی ہے، ہم اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔‘
گورنر نے علی امین گنڈاپور کا استعفا واپس کردیا
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفا اعتراض لگا کر واپس کردیا ہے۔ گورنر کی جانب سے جاری خط میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ علی امین گنڈا پور کے نام سے جمع کرائے گئے دونوں استعفوں پر دستخط مختلف اور غیرمشابہ ہیں، اس لیے ان کی تصدیق ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے گورنر نے علی امین گنڈا پور کو 15 اکتوبر دوپہر تین بجے گورنر ہاؤس طلب کیا ہے۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبے میں آئینی اور جمہوری عمل کو شفاف رکھنے کے لیے استعفے کی باقاعدہ تصدیق ناگزیر ہے۔
تاہم علی امین گنڈا پور نے سوشل میڈیا پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ دونوں استعفوں پر ان کے مستند دستخط موجود ہیں۔




