قطر، مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر غزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا ایک اہم ثالث رہا ہے تاہم تازہ ترین واقعے کے بعد ثالثی عمل کے متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ ثالثی کی کوششیں قطر کی قومی شناخت کا حصہ ہیں اور کوئی بھی اقدام اسے اس کردار سے نہیں روک سکتا۔ قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں لیکن آج کے حملے کے بعد موجودہ بات چیت میں کسی پیش رفت کا امکان نظر نہیں آتا۔
انہوں نے اسرائیل پر امن کے مواقع کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو ”ریاستی دہشت گردی“ کا مرتکب قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو نے حالیہ کارروائیوں سے ثالثی عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حملے کو ”مکمل طور پر جائز“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی یروشلم میں ایک حملے اور غزہ میں 4 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کی گئی۔
الثانی کے مطابق امریکی حکام نے قطر کو اسرائیلی حملے کے آغاز کے 10 منٹ بعد آگاہ کیا، جسے انہوں نے ”100 فیصد غداری“ قرار دیا۔
قطری وزیرِ اعظم نے خبردار کیا کہ دوحہ کو اس حملے کے جواب کا حق حاصل ہے اور وہ ضروری اقدامات اٹھائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ خلیجی ملک کے ردعمل کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر بڑا حملہ کرتے ہوئے حماس قیادت کو نشانہ بنایا تھا، جس میں خلیل الحیہ کے بیٹے سمیت 5 حماس رہنما شہید ہوگئے تھے۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے دوحہ میں حالیہ اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دے دیا اور پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ وہ اسرائیلی حملے کے جواب کا حق محفوظ رکھتے ہی




