صدر ٹرمپ کے مشیر نے روس یوکرین تنازع کو ’مودی کی جنگ‘ قرار دے دیا

واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تجارتی تناؤ شدت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر پیٹر ناوارو نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جنگ قرار دیتے ہوئے بھارت پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ماسکو سے تیل کی خریداری بند کرے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا نے بھارت سے درآمدات پر 50 فیصد تک کے بھاری ٹیرف عائد کر دیے ہیں، جو دنیا کے بلند ترین تجارتی محصولات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں روس سے تیل اور ہتھیار خریدنے پر 25 فیصد اضافی جرمانہ بھی شامل ہے۔

واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ روسی تیل اور اسلحہ خریدنے سے ماسکو کو یوکرین جنگ کے لیے مالی مدد مل رہی ہے۔

بھارت نے امریکی اقدامات کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کے مفاد میں روس سے سستا تیل خریدنا جاری رکھے گا۔ روسی حملے (فروری 2022) سے قبل بھارت کا روسی تیل میں حصہ محض 2 فیصد تھا، جو اب بڑھ کر 35 سے 40 فیصد تک جا پہنچا ہے اور روس بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ بن گیا ہے۔

نئی دہلی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ امریکا نے چین اور یورپی یونین پر ایسے اضافی ٹیرف عائد نہیں کیے حالانکہ دونوں ممالک روس کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔

ٹرمپ کے مشیر پیٹر ناوارو نے بلومبرگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی پالیسیوں سے امریکا میں سب کو نقصان ہو رہا ہے۔ صارفین، کاروبار اور مزدور متاثر ہیں، ہمیں نوکریوں، فیکٹریوں اور آمدن سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان بھی نقصان میں ہیں کیونکہ ہمیں مودی کی جنگ کو فنڈنگ کرنا پڑرہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امن کا راستہ نئی دہلی سے بھی ہو کر گزرتا ہے، اس لیے بھارت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔

پیٹر ناوارو نے بھارتی رویے کو ”مغرورانہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو جمہوریت کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے۔

امریکی ٹیرف کے نفاذ سے بھارت کی برآمدی صنعتوں پر براہ راست اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ بھارت امریکا کو کپڑوں، ہیرے اور جھینگے سمیت مختلف اشیاء برآمد کرتا ہے تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مذاکرات جو اسی ہفتے طے تھے، منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

اگرچہ بیانات کی جنگ جاری ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کے لیے نکلنے کا راستہ موجود ہے کیونکہ وہ بحرالکاہل کے خطے میں امریکا کا اہم اسٹریٹجک شراکت دار ہے۔ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے بھی کہا ہے کہ بالآخر دونوں ممالک اپنے تعلقات بہتر سمت میں لے جائیں گے۔

بھارتی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ برآمدات پر فوری اثر محدود ہے مگر معیشت پر اس کے وسیع تر نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم مودی پہلے ہی ٹیکسوں میں کمی کا وعدہ کر چکے ہیں تاکہ اثرات کم کیے جا سکیں۔

بھارتی وزارت خزانہ نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں زور دیا ہے کہ مستقبل کے تجارتی مذاکرات دونوں ممالک کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں