کوئٹہ، بلوچستان —
آج صبح شہر کے ایک معروف ہوٹل میں ناشتہ کرتے ہوئے ایک نوجوان نے پراٹھا منگوایا۔ جیسے ہی پراٹھا آیا، وہ ایک عجیب منظر تھا۔ پراٹھا کسی عام کاغذ میں لپٹا ہوا نہیں تھا، بلکہ وہ کاغذ کسی نوجوان کی اٹیسٹ شدہ تعلیمی اسناد تھیں۔
بی۔اے، ایم۔اے، حتیٰ کہ ایم۔فل کی ڈگریوں کی نقول، ان پر مہریں، دستخط — اور ان کے بیچ لپٹا ایک پراٹھا۔
یہ کاغذات شاید کسی بیروزگار بلوچ نوجوان کے تھے، جس نے برسوں محنت کر کے یہ ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ شاید وہ لورالائی، خضدار، پنجگور یا کسی اور دور دراز علاقے سے نوکری کی تلاش میں کوئٹہ آیا ہو۔ کسی “فارم 47” کے وزیر نے دلاسہ دیا ہوگا:
“بس آپ جائیں، کام ہو جائے گا۔”
مگر کام کہاں ہوتا ہے؟
بلوچستان میں ڈگری کا مطلب صرف کاغذ ہے، ایک ایسا کاغذ جس پر یا تو پراٹھا لپیٹا جاتا ہے یا پھر کسی فائل کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ یہاں میرٹ سے زیادہ سفارش، محنت سے زیادہ تعلق اور خوابوں سے زیادہ سازشیں بولتی ہیں۔
نہ سسٹم جاگا، نہ کوئی وزیر۔
جاگے تو بس وہ آنکھیں، جنہوں نے امید کی نیند دیکھی تھی۔
جلے تو بس وہ دل، جو بلوچستان کی مٹی میں کچھ بننے کا خواب لیے پھرا تھا۔
آخر میں سوال صرف اتنا ہے:
کیا تعلیم واقعی روشنی ہے؟
یا بلوچستان میں یہ بس ایک بے مقصد بوجھ ہے، جو آخرکار پراٹھا لپیٹنے کے کام آتا ہے؟