اساتذہ کا قتل، ایم ایس ہسپتال کو شاملِ جرم قرار دینے کا مطالبہ

اساتذہ کا قتل ناقابل برداشت،ایم ایس ہسپتال کو بھی شامل جرم قرار دیا جائے۔آل اقراء پرائیویٹ اسکولز آرگنائزیشن ضلع کوئٹہ کا شدیدرنج وغم کا اظہار

کچلاک میں الفلاح پبلک اسکول کلی لنڈی کے پرنسپل محمد سکندر کے لرزہ خیز قتل پر آل اقراء پرائیویٹ اسکولز آرگنائزیشن ضلع کوئٹہ کے تمام ذمہ داران، سربراہان مدارس و اسکولز اور اساتذہ برادری نے شدید رنج و غم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس بہیمانہ واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔اساتذہ رہنماؤں نے کہا کہ ایک استاد اگر غلطی کا مرتکب بھی ہو تو ریاستی قانون، عدالتیں، تعلیمی فورمز اور والدین کے مذاکراتی اختیارات موجود ہوتے ہیں، نہ کہ کسی شخص کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر استاد پر دن دہاڑے خنجروں سے وار کر کے اسے قتل کر دے۔اساتذہ راہنماؤں نے خاص طور پر مفتی محمود میموریل ہسپتال کچلاک کے ایم ایس کو اس واقعے میں شامل جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک طبی ادارے کا کام مریض کا علاج کرناہوتا ہے نہ کہ خود ساختہ ایف آئی آر درج کرواکرقتل جیسے نتائج تک بات پہنچانا۔ اگر واقعی بچے پر تشددکا معاملہ تھاتووالد نے قانون کے مطابق صلح کر کے بچے کی طرف سے معافی دے دی تھی، پھر ایم ایس کا یہ کردار کہ وہ پولیس، سماجی اداروں اور این جی اوز کے ذریعے پراپیگنڈا بنوائے،واضح کرتا ہے کہ وہ اس قتل کے محرکات میں برابر کے شریک ہیں۔اساتذہ نے سوال کیا کہ کیا ایم ایس نے بچے کے علاج کی کوئی قانونی رپورٹ دی؟
کیا بچے کے والدین نے ایم ایس سے مدد مانگی؟کیا یہ ایم ایس کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ پولیس کارروائی کے لیے محرک بنے؟اگر ان سب سوالات کا جواب نہیں میں ہے تو ایم ایس کی حرکت ایک سازش اور اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ضلع کوئٹہ کے تمام اقراء وپرائیویٹ سکولوں کے ذمہ داران کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ قاتل کو فی الفور گرفتارکر کے نشان عبرت بنایا جائے۔
مفتی محمود میموریل ہسپتال کے ایم ایس کو شاملِ تفتیش کیا جائے اور اس کے کردار کی مکمل چھان بین کی جائے۔
اساتذہ کے تحفظ کے لیے حکومت بلوچستان فوری قانون سازی کرے تاکہ نجی اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ خود کو غیر محفوظ نہ سمجھیں
پولیس رپورٹ کو ازسرنو چیک کیا جائے اور واقعے کے تمام پسِ منظر کو سامنے لایا جائے تاکہ حقیقت واضح ہو۔
مقتول پرنسپل محمد سکندر کو تعلیمی شہید کا درجہ دیا جائے اور ان کے خاندان کو سرکاری سطح پر انصاف و مالی امداد دی جائے۔اساتذہ راہنماؤں نے کہا کہ اگر اساتذہ کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دینا جان کا خطرہ بن جائے گا۔ یہ صرف ایک فرد کا قتل نہیں بلکہ تعلیم، تربیت، قانون اور تہذیب پر حملہ ہے۔اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں