عوامی ٹیکس پر حکومتی عیاشیاں: بلوچستان حکومت کا جہاز وزیر و بیگم کے سیر سپاٹے میں مصروف
تحقیقی رپورٹ | اولس نیوز
بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، وہیں صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام عوامی ٹیکس کے پیسوں سے خریدے گئے قیمتی اثاثوں کو ذاتی مفادات اور سیر سپاٹے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تازہ ترین مثال صوبائی وزیر برائے آبپاشی صادق عمرانی کی ہے، جو اپنی اہلیہ—پارلیمانی سیکرٹری محترمہ شہناز عمرانی—کے ہمراہ بلوچستان حکومت کے اربوں روپے مالیت کے سرکاری جہاز میں تفریحی دورے پر روانہ ہوئے۔
یہ وہی صادق عمرانی ہیں جو ماضی میں خود کو ایک نظریاتی کارکن اور جیالا کہلاتے تھے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے سرکاری وسائل کے ذاتی استعمال پر شدید تنقید کرتے رہے، لیکن اقتدار میں آتے ہی وہی عمل خود دہرانا شروع کر دیا۔ آج اقتدار کی طاقت کے نشے میں، وہ نہ صرف سرکاری وسائل کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں بلکہ اپنے دفاتر میں عام عوام اور پارٹی کارکنوں کو بھی رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دفتر میں عوام کی تذلیل
ذرائع کے مطابق، صادق عمرانی کے دفتر میں عام کارکن یا شہری اگر کوئی مسئلہ لے کر جائیں تو انہیں نہ صرف بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔ موصوف یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ:
“میں بھائی لوگوں کے بل بوتے پر سیٹ جیتا ہوں، عوام یا کارکنوں کا کوئی احسان نہیں۔”
سرکاری جہاز کا ذاتی استعمال—کس قانون کے تحت؟
یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آخر کس قانون یا ضابطے کے تحت حکومت بلوچستان کا اربوں روپے مالیت کا طیارہ وزیروں، ان کی بیگمات اور ذاتی دوستوں کی عیاشیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے؟
یہ وہی طیارہ ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے خریدا گیا، تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں یا اہم سرکاری دوروں کے لیے استعمال ہو۔ مگر اب یہ ایک تفریحی گاڑی بن چکا ہے۔
غریب صوبہ، امیر حکمران
بلوچستان میں جہاں ہزاروں اسکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جہاں ہسپتالوں میں دوائیں ناپید ہیں، جہاں پینے کے پانی کا بحران دن بہ دن سنگین ہوتا جا رہا ہے، وہاں حکمران طبقہ اپنے خاندانوں سمیت سرکاری جہازوں پر لطف اندوز ہو رہا ہے۔ یہ عوام کے ساتھ کھلا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
نتیجہ:
اگر یہی طرز حکمرانی رہا تو عوام کا اعتماد ریاستی اداروں سے مزید اٹھتا جائے گا۔ سوال صرف یہ نہیں کہ جہاز استعمال کیوں کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ آخر احتساب کون کرے گا؟ اور کب تک بلوچستان کے عوام صرف قربانی دیتے رہیں گے جبکہ ان کے حکمران عیش کرتے رہیں گے؟