بسم اللہ خان کاکڑ: پشتون قوم پرستی کی ایک فراموش شدہ مگر جرآت مند آواز

بسم اللہ خان کاکڑ کا انتقال نہ صرف پشتونوں بلکہ پاکستان کی تمام محکوم قومیتوں کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج بہت سے نوجوان بلوچ اور پشتون ان کے نام اور طویل سیاسی جدوجہد سے واقف نہیں ہیں۔ یہ لاعلمی اتفاقیہ نہیں بلکہ اس بات کی عکاس ہے کہ کس طرح اصولی اور نظریاتی سیاسی کارکنوں کی خدمات کو اجتماعی یادداشت سے مٹا دیا جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچتے یا سیاست کو دولت کمانے کا ذریعہ نہیں بناتے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو اس گمنام مگر غیر معمولی سیاسی رہنما کی قربانیوں اور خدمات سے روشناس کرایا جائے۔

بسم اللہ خان کاکڑ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بلوچستان میں پشتون قوم پرست تحریک کے اہم ترین سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس دور میں پشتون قوم پرستی کی تاریخ ان کے سیاسی کردار اور جدوجہد کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ وہ بلوچستان میں طلبہ سیاست کے بانیوں میں شامل تھے (خصوصاً پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی)، ایک مخصوص تاریخی مرحلے میں مسلح جدوجہد کے قائد رہے، پوری زندگی ایک نظریاتی سیاسی کارکن کے طور پر سرگرم رہے، اور ساتھ ہی ایک مخلص اور ذمہ دار کمیونٹی لیڈر بھی تھے۔ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران انہوں نے اور ان کے خاندان نے بار بار ذاتی اور خاندانی مشکلات برداشت کیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سویلین دور میں بھی قید و بند کا شکار رہے اور بعد ازاں جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا ادوار میں بھی جیلیں کاٹیں۔

میرے نزدیک بسم اللہ خان کاکڑ کی سیاسی وراثت کو تین بنیادی خدمات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلی خدمت: بلوچستان میں منظم طلبہ سیاست کی بنیاد

بسم اللہ خان کاکڑ نے بلوچستان میں منظم طلبہ سیاست کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ 1946 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سینڈیمن اسکول سے میٹرک اور سائنس کالج کوئٹہ سے ایف ایس سی مکمل کی—یہ ادارے 1960 کی دہائی میں طلبہ کے سیاسی شعور کی تشکیل میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ 1968 میں وہ پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) کے بانیوں میں شامل تھے اور 1969 میں اس کے پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے نثار شنواری PSF کے پہلے صدر بنے۔ بسم اللہ خان کاکڑ آل پاکستان اسٹوڈنٹس یونین کے قیام میں بھی شامل تھے، جو ملک کے مختلف حصوں کی طلبہ تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ایک اہم کوشش تھی، اُس وقت جب طلبہ سیاست جمہوری جدوجہد کا ایک طاقتور ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔

اپنے عہد کے دیگر متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی طرح بسم اللہ خان کاکڑ بھی ابتدا ہی سے سوشلسٹ نظریات، سامراج مخالف فکر اور عالمی سطح پر سماجی انصاف کی تحریکوں سے متاثر تھے۔ PSF کے ذریعے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ملاقات عبد الولی خان سے ہوئی، اور بعد ازاں PSF، نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کی اتحادی بن گئی۔ ہمارے دوست اور اس علاقے کی سیا ست کے انسائکلوپیڈیا سمجھے جانے والے عثمان قاضی صاحب نے تصحیح کی ہے کہ پی ایس ایف نیپ کی ذیلی تنظیم بلکہ ملگری تنظیم رہی۔

وقت کے ساتھ PSF ایک عملی تربیت گاہ بن گئی جہاں سیاسی کارکن تیار ہوئے۔ 1970، 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پشتون قوم پرست اور ترقی پسند سیاست میں شامل ہونے والے بیشتر نوجوان براہِ راست یا بالواسطہ بسم اللہ خان کاکڑ کی تنظیمی محنت، سیاسی تربیت اور نظریاتی نظم و ضبط سے متاثر تھے۔ انہوں نے سیاسی کارکنوں کی ایک پوری نسل تیار کی جو دہائیوں تک مختلف جمہوری اور قوم پرست جماعتوں میں سرگرم رہی۔ اس علاقے کے سیاست کے ایک اور پرانے استاد ڈاکٹر اقبال ترین صاحب کے مطابق اس زمانے میں تقریباً ہر دوسرا پشتون قوم پرست سیاست کرنے والا نوجوان کسی نہ کسی طرح بسم اللہ کاکڑ کی فکری مہم سے جڑا ہوا تھا۔

دوسری خدمت: ایک مخصوص تاریخی تناظر میں مسلح جدوجہد

بسم اللہ خان کاکڑ کی سیاسی زندگی کا دوسرا اہم مرحلہ ایک مختصر مسلح جدوجہد سے وابستہ تھا، جسے اس کے سیاسی اور تاریخی پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مرحلہ براہِ راست بھٹو حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے ردعمل میں سامنے آیا، خاص طور پر 1973 میں بلوچستان کی منتخب صوبائی حکومت کی برطرفی اور اس کے بعد بلوچ علاقوں میں فوجی آپریشن اور بلوچ و پشتون سیاسی قیادت کی گرفتاریوں کے تناظر میں۔ جب جمہوری سیاست کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور آئینی جدوجہد کو کچل دیا گیا، تو بسم اللہ خان کاکڑ اور ان کے طلبہ ساتھیوں نے وہ قدم اٹھایا جو بعد میں بلوچستان میں پہلی منظم پشتون قوم پرست مسلح مزاحمت کے طور پر سامنے آیا۔ یہ قدم نیپ کی قیادت پر مظالم اور خاص طور پر بلوچوں کے خلاف ملٹری آپریشن کے خلاف اٹھا یا گیا۔

1974 سے 1978 تک، انہوں نے اس مسلح جدوجہد میں حصہ لیا اور اس کی قیادت کی، جس کا مرکز زیادہ تر پاک افغان سرحد کے قریب اسو مرغہ کیمپ تھا۔ اس عرصے میں ان کے کئی ساتھی یا تو براہِ راست جھڑپوں میں مارے گئے یا حراستی تشدد کا نشانہ بنے۔ اور کاکڑ صاحب اجمل خٹک صاحب کے بڑے قریبی ساتھی رہے۔

یہ مرحلہ کسی رومانوی تشدد کا مظہر نہیں تھا بلکہ ریاستی جبر، سیاسی گھٹن اور پرامن اختلاف کے تمام راستوں کی بندش کا ایک سیاسی ردعمل تھا۔

وقت کے ساتھ سیاسی حالات تبدیل ہونے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور سردار داؤد خان کے درمیان مفاہمت سے اس مزاحمت کے لیے علاقائی گنجائش کم ہو گئی، اور داؤد خان کی حکومت نے بسم اللہ خان کاکڑ اور ان کے ساتھیوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ مسلح جدوجہد ترک کریں۔ یہ عمل اُس وقت مکمل ہوا جب جنرل ضیاء الحق نے سیاسی عام معافی کا اعلان کیا اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ اس کے بعد بسم اللہ خان کاکڑ اور ان کے ساتھی پاکستان واپس آ گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ واپسی پر انہوں نے شعوری طور پر مسلح جدوجہد ترک کرنے اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر بسم اللہ خان کاکڑ اپنی زندگی کے آخری دن تک قائم رہے۔

تیسرا مرحلہ: جمہوری سیاست، اصول پسندی اور کمیونٹی قیادت

پاکستان واپسی کے بعد، بسم اللہ خان کاکڑ نے بعد ازاں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی( نیپ کی جانشین) سے نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کی، خاص طور پر افغانستان میں ثور انقلاب کے حوالے سے۔ اپنے عہد کے بہت سے باشعور طلبہ کی طرح وہ اور ان کے ساتھی اس انقلاب کو سوشلسٹ تناظر میں مثبت سمجھتے تھے، جبکہ ولی خان نے اس کی مخالفت کی، جس کی ایک وجہ سردار داؤد خان کے ساتھ ان کے قریبی سیاسی تعلقات تھے، جو اس انقلاب میں مارے گئے۔ اس اختلاف نے ولی خان اور پشتون قوم پرست جماعتوں سے مستقل سیاسی فاصلہ پیدا کر دیا۔ بعد ازاں بسم اللہ کاکڑ افغانستان میں روس کی فوجی مداخلت کے شدید ناقد رہے۔

بعد ازاں بسم اللہ خان کاکڑ اور ان کے ساتھیوں نے غوث بخش بزنجو کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) میں شمولیت اختیار کی۔ یاد رہے کہ بزنجو صاحب بھی ثور انقلاب کے حمایتی اور سوشلسٹ فکر کے حامی تھے۔یہی مشترک فکر بسم اللہ کاکڑ اور ان کے ساتھیوں کو بزنجو کے قریب لائی۔ اور پھر وہ مارشل لا مخالف تحریک کا حصہ بھی بنے۔ 1988 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد کاکڑ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے PNP کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم، 1980 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کی دہائی میں بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ نمایاں طور پر بدل چکا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے دور کی پشتون-بلوچ یکجہتی سیاست کی جگہ انتشار، مسابقت اور انتخابی رقابت نے لے لی۔ اگرچہ بسم اللہ خان کاکڑ نے ماضی میں بزنجو، نواب خیر بخش مری اور سردار عطا اللہ مینگل جیسے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کی تھی، لیکن ایسے تعاون کی سیاسی گنجائش رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔

جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دوران جب بسم اللہ خان کاکڑ پہلی مرتبہ قید ہوئے تو سردار عطا اللہ مینگل نے لسبیلہ جیل میں انہیں ذاتی طور پر کھانا بھجوایا اور رہائی کے بعد ان کے سفر کے اخراجات بھی ادا کیے۔ ایسے تجربات نے بسم اللہ خان کاکڑ کے اندر پشتون-بلوچ اتحاد کے تصور کو مزید مضبوط کیا۔ بدقسمتی سے 1990 کی دہائی تک بلوچستان کا سیاسی ماحول اس وژن کے لیے سازگار نہ رہا۔ خود بزنجو کو بھی انتخابی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور 1989 میں ان کے انتقال کے بعد PNP عملاً ختم ہو گئی۔

1990 کی دہائی کے وسط میں بسم اللہ خان کاکڑ نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اپنی وفات تک اس سے وابستہ رہے۔ جمہوریت سے ان کی وابستگی کے باعث انہیں جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے محترمہ بے نظیر بھٹو سے قریبی سیاسی تعلقات تھے، لیکن ان کی شہادت کے بعد اور آصف علی زرداری کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، بسم اللہ خان کاکڑ جیسے نظریاتی سیاسی کارکن پارٹی کے اندر بتدریج حاشیے پر دھکیل دیے گئے۔

رسمی سیاست سے ہٹ کر بسم اللہ خان کاکڑ کی تیسری اور شاید سب سے پائیدار خدمت ان کا کردار بطور ایک دیانتدار سیاسی کارکن اور مخلص کمیونٹی لیڈر تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی نہایت سادہ طریقے سے گزاری۔ ایسے وقت میں جب سیاست تیزی سے ذاتی مفاد اور دولت کمانے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے، بسم اللہ خان کاکڑ نے کرپشن اور مالی فائدے کو مستقل طور پر مسترد کیا۔ وہ مالی اعتبار سے غریب پیدا ہوئے اور غریب ہی دنیا سے رخصت ہوئے، مگر اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ایک بھرپور وراثت چھوڑ گئے۔

ان کی سب سے اہم خدمت ان کی اپنی کمیونٹی کے لیے تھی۔ اعلیٰ تعلیم یا سماجی ترقی کے بعد بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے کے برعکس، بسم اللہ خان کاکڑ نے اپنی جڑیں اپنے علاقے میں قائم رکھیں۔ انہوں نے اپنے علاقے میں بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چند سال قبل ہم نے ایک تعلیمی تحقیق کی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ضلع قلعہ عبداللہ میں مجموعی طور پر خراب تعلیمی صورتحال کے باوجود بعض سرکاری اسکول بہتر کارکردگی کیوں دکھا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں علاقہ حبیب زئی تھا، جو بسم اللہ خان کاکڑ کا گاؤں ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بسم اللہ خان کاکڑ کی مسلسل نگرانی اور ذاتی قیادت تھی۔ وہ خود اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اساتذہ اسکولوں میں حاضر رہیں، بشمول ان کے اپنے رشتہ دار، اور سرکاری دفاتر سے بنیادی سہولیات کے لیے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ اسی ذاتی وابستگی کے باعث حبیب زئی آج بھی ضلع کے بہترین سرکاری اسکولوں میں شمار ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے اپنی زندگی کے آخری د ہائیوں میں بسم اللہ خان کاکڑ کے تعلقات پشتون قوم پرست جماعتوں کے ساتھ کشیدہ رہے۔ اس کی وجہ نظریاتی اختلافات کے ساتھ ساتھ سیاست میں بڑھتی ہوئی کرپشن، موقع پرستی اور پیسے کی بالادستی پر ان کی شدید ناپسندیدگی تھی۔ اگرچہ ان کے کئی دیرینہ ساتھی عوامی نیشنل پارٹی (ANP) میں شامل ہو گئے اور آج بھی اس سے وابستہ ہیں، بسم اللہ خان کاکڑ خود کبھی باضابطہ طور پر اس جماعت میں واپس نہیں آئے۔ وہ آخری سانس تک وہ ان سیاسی رویوں سے سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ تھے جو ان کے نزدیک تحریک کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کر چکے تھے۔ ان کے نزدیک سیاست خدمت اور قربانی کا نام تھا، ذاتی ترقی کا ذریعہ نہیں۔

ان اختلافات کے باوجود، ان کے پرانے ساتھی ان کے لیے احترام اور وفاداری رکھتے رہے۔ مختلف جماعتوں سے وابستہ ہونے کے باوجود، وہ بسم اللہ خان کاکڑ کو ایک استاد، تنظیم ساز اور بزرگ سیاسی کارکن کے طور پر مانتے رہے۔ میری ذاتی ملاقاتوں میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ بسم اللہ خان کاکڑ کے دل میں یہ خلش موجود تھی کہ پشتون قوم پرست سیاست نے ان کی قربانیوں اور تاریخی کردار کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ احساس ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہا، اور اس کا علامتی اظہار ان کی وصیت میں ہوا، جس میں انہوں نے اپنے جنازے پر سیاسی تقاریر پر سختی سے پابندی عائد کی—یہ موجودہ سیاسی ثقافت سے ان کی خاموش مگر گہری ناراضی کا ایک طاقتور اظہار تھا۔

آخر میں، بیسویں صدی میں پشتون قوم پرستی کی تاریخ بسم اللہ خان کاکڑ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے ساتھیوں میں ڈاکٹر اکبر کاکڑ صوفی، نسیم آغا، صوفی شیر، عزیز ماما، وہاب اتمان خیل، خان میر، صاحب جان کاکڑ، ارباب غلام کاسی، عبد الرحمان ایسوٹ، نور محمد اچکزئی اور بے شمار دیگر گمنام سیاسی کارکن شامل ہیں۔ یہ وہ نسل تھی جس نے ذاتی مفاد پر اجتماعی جدوجہد، سیاسی اخلاقیات اور عوامی خدمت کو ترجیح دی—ایسی اقدار جو آج کے پاکستان میں پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں