تحریر لکشا کملیش
عنوان:
نابالغ دلہنیں، بوجھل زندگیاں”
کم عمری کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جو صدیوں سے ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ اگر ہم پچاس سال پہلے کا جائزہ لیں تو ہمارے والدین اور بزرگوں کی شادیاں بھی بہت کم عمری میں ہو چکی تھیں۔ یہ رسم نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہمارے ملک میں عام ہے۔ اس مسئلے کی بنیادی وجوہات میں غربت سرفہرست ہے۔ ہمارے یہاں خاندانی منصوبہ بندی کے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔
اگر ہم ایک عام مزدور کی زندگی پر نظر ڈالیں جو روزانہ 700 سے 800 روپے کماتا ہے اور جس کے چار سے پانچ بچے ہیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں کن ضروریات کو پورا کرے؟ گھر کا کرایہ، پانی، بجلی اور گیس کے بل، کھانے پینے کا خرچ، بچوں کی تعلیم اور طبی اخراجات—یہ سب ضروریات ایک محدود آمدنی میں پوری کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ جب یہ مزدور اپنی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کی عمر 10 سے 12 سال ہوتے ہی اس کے لیے رشتہ دیکھنا شروع کر دیتا ہے تاکہ اس کے اخراجات میں کمی آسکے۔
ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے رسم و رواج بھی موجود ہیں جو کم عمری کی شادی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض خاندانوں میں جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو پہلے سے ہی یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اگر بیٹی پیدا ہوئی تو فلاں گھر میں اس کی شادی ہوگی۔ اسی طرح، بعض بزرگ اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی اولاد کی شادیاں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے والدین جلد بازی میں بچوں کے رشتے طے کر دیتے ہیں۔
مزید برآں، ہمارے ہاں “وٹا سٹا” جیسی روایات بھی موجود ہیں، جہاں ایک بیٹی کے بدلے دوسری دی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں، اور کم عمر بچے اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایسے ہی ایک واقعے میں، ایک خاتون جو ہاتھ کی کڑھائی کا کام کرتی تھیں، ہمارے گھر آئیں اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کروائی، مگر دھوکے سے اس کا رشتہ ایک ایسے شخص سے کر دیا گیا جو پہلے سے شادی شدہ تھا، جبکہ انہیں دکھایا کسی اور کو گیا تھا۔ بعد میں، جب یہ حقیقت سامنے آئی، تو انہوں نے قانونی چارہ جوئی کی اور کیس جیت بھی لیا، مگر ان کی بیٹی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ وہ 15 سے 16 سال کی عمر میں ایک ایسے تجربے سے گزری جو اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
کم عمری کی شادی نہ صرف ایک بچی کے بچپن اور تعلیم کو چھین لیتی ہے بلکہ اس کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایک نابالغ لڑکی، جس کے جسمانی اعضاء ابھی پوری طرح نشوونما نہیں پائے، جب ماں بنتی ہے تو اسے شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ، چولہا چوکی سنبھالنا، اور بچوں کی دیکھ بھال اس کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دیتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ان فرسودہ روایات کو ترک کریں اور اپنی بیٹیوں کو وہی عزت اور مقام دیں جو وہ حق رکھتی ہیں۔ ہر لڑکی کو بھی اتنا ہی انسان سمجھا جائے جتنا ایک لڑکے کو۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہم اپنے بیٹوں کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہوتے ہیں تو بیٹیوں کے لیے بھی وہی خواب کیوں نہ دیکھیں؟
صرف اس تحریر کو پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم اس مسئلے پر آواز بلند کریں گے، دوسروں کو آگاہ کریں گے، اور کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ اگر آپ کے اردگرد کہیں کم عمری کی شادی ہو رہی ہو، تو فوری طور پر متعلقہ اداروں کو اطلاع دیں تاکہ ان معصوم بچیوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکیں۔ ایک روشن اور خوشحال معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو تعلیم اور بہتر مستقبل کے مواقع فراہم کریں، بجائے اس کے کہ انہیں بچپن میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے۔