اخبار مالکان کا خدشہ: “سرکاری اشتہارات بھی ڈیجیٹل میڈیا کو دیے گئے تو پرنٹ میڈیا کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا”
تحریر: [جاوید شاہ]
کوئٹہ —
بلوچستان میں اخباری صنعت ایک گہرے بحران سے گزر رہی ہے، جہاں مالی مشکلات، کمزور اشتہاری مارکیٹ، اور ڈیجیٹل میڈیا کی جانب حکومتی جھکاؤ نے اخبارات کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اخبار مالکان کا کہنا ہے کہ اگر صوبائی حکومت نے سرکاری اشتہارات بھی مکمل طور پر ڈیجیٹل میڈیا کو دینا شروع کر دیے، تو صوبے میں پرنٹ میڈیا کا چراغ بجھ جائے گا، اور ہزاروں صحافی، پرنٹنگ ورکرز، اور ہاکرز بے روزگار ہو جائیں گے۔
بحران کی وجوہات:
کمزور معاشی ڈھانچہ
بلوچستان میں نہ تو بڑی صنعتیں ہیں، نہ ہی کمرشل سطح پر اشتہارات دینے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ اس وجہ سے اخبارات کو نجی شعبے سے بمشکل ہی آمدن حاصل ہوتی ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی طرف رجحان
حکومت اور ادارے تیزی سے ڈیجیٹل میڈیا کی طرف جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اشتہارات دیے جا رہے ہیں، جس سے پرنٹ میڈیا کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اشاعتی لاگت میں اضافہ
کاغذ، پرنٹنگ، بجلی اور ترسیل کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ بعض اخبارات نے صفحات کم کر دیے ہیں، اور کئی اشاعتی ادارے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
اخبار مالکان کا مؤقف:
“ہم پہلے ہی اشتہارات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر حکومت نے بچا کھچا تعاون بھی واپس لے لیا، تو یہ صنعت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔”:
-
اشتہارات کی تقسیم میں پرنٹ میڈیا کو ترجیح دی جائے
-
بلوچستان کے اخبارات کے لیے خصوصی سبسڈی اسکیمز دی جائیں
-
میڈیا پالیسی میں علاقائی اخبارات کو تحفظ فراہم کیا جائے
کیا واقعی پرنٹ میڈیا کا خاتمہ قریب ہے؟
صحافتی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں بلوچستان میں صرف چند ہی اخبارات باقی رہ جائیں گے، وہ بھی بمشکل۔ پرنٹ میڈیا نہ صرف خبری معلومات کا ذریعہ ہے، بلکہ صحافت کی تربیت گاہ بھی ہے۔
نتیجہ:
بلوچستان کی اخباری صنعت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر حکومت اور میڈیا ریگولیٹری ادارے فوری اقدامات نہ کریں، تو ایک پوری صحافتی تاریخ صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے۔ پرنٹ میڈیا کو بچانا صرف ایک معاشی ضرورت نہیں، یہ صحافتی ورثے کی بقا کا سوال بھی ہے۔