آزاد کشمیر میں پُرتشدد واقعات: وزیراعظم کا تحقیقات کا حکم

وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں بداعتمادی اور تشدد کی تازہ لہر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت و انتظامیہ کو فوری اور ٹھوس اقدامات کی ہدایت کر دی ہے۔ انہوں نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے، تاہم مظاہرین سے اپیل ہے کہ وہ امن و امان کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور عوامی جذبات کا احترام یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نے متاثرہ خاندانوں تک فوری ریلیف پہنچانے کی بھی ہدایت جاری کی ہے۔
وزیراعظم نے واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے تاکہ جس بھی ناخوشگوار واقعے میں ذمہ دار ہوں انہیں بے نقاب کیا جا سکے۔
انہوں نے مذاکراتی عمل کو تیز کرنے کے لیے مذاکراتی کمیٹی میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے اور کمیٹی میں سینیٹر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزراء سردار یوسف اور احسن اقبال، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان اور قمر زمان کائرہ کو شامل کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ کمیٹی فوری طور پر مظفرآباد پہنچ کر مسائل کا جائزہ لے اور اپنی سفارشات اور مجوزہ حل بلا تاخیر وزیراعظم آفس کو ارسال کرے تا کہ فوری تدارک کے اقدامات کیے جا سکیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کشمیری بھائیوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور مذاکرات کے عمل کی خود نگرانی کریں گے، نیز وطن واپسی کے بعد مذاکراتی عمل کی نگرانی کے لیے بھی وزیراعظم آفس چوکنا رہے گا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی یا اضافی طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے اور عوامی جذبات کو پورے احترام کے ساتھ سننے اور حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
گزشتہ تین روز سے جاری احتجاجی تحریک میں بدھ کے روز مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ بی بی سی کے مطابق ان جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار جاں بحق اور تقریباً 150 اہلکار زخمی ہوئے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’چمیاٹی کے مقام پر جھڑپ کے دوران تین پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 150 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے آٹھ کی حالت تشویش ناک ہے۔‘
جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ جھڑپوں میں دو مظاہرین بھی جان سے گئے اور متعدد شہری زخمی ہوئے ہیں۔
ضلعی حکام اور طبی ذرائع زخمیوں کی تعداد میں فرق ہونے کی وجہ سے تاحال حتمی اعداد و شمار پیش نہیں کر سکے۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات میں حکمران طبقات کی مراعات میں تبدیلی، مہاجرین کے لیے مخصوص اسمبلی نشستوں کا خاتمہ، مفت علاج معالجہ، یکساں و مفت تعلیم، بین الاقوامی ائیرپورٹ کے قیام، کوٹہ نظام میں اصلاحات اور عدالتی نظام میں اصلاحات شامل کی ہیں۔
کمیٹی کا موقف ہے کہ ان کے مطالبات آئینی اور جمہوری نوعیت کے ہیں اور یہ تحریک مکمل طور پر پرامن ہے، تاہم انہوں نے بین الصوبائی شاہراہوں کی بندش اور احتجاجی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں بھی تسلیم کی ہیں۔
وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری اور مقامی انتظامیہ نے کہا ہے کہ تشدد کے راستے سے کسی مقصد کا حصول ممکن نہیں اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں جاری رکھے گی اور متعدد مطالبات پہلے ہی تسلیم کر لیے گئے ہیں جبکہ بعض آئینی و قانونی نوعیت کے مطالبات کے حل کے لیے کمیٹی کو آئینی طریقہ کار اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مقامی سیاسی رہنماؤں اور کمیٹی کے ارکان نے بھی وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کو خیرمقدم کرتے ہوئے مذاکرات کے لیے مواصلاتی بلیک آؤٹ ختم کرنے کی فوری اپیل کی ہے تاکہ مذاکرات بامعنی اور مؤثر ہوں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما سردار عمر نذیر کشمیری نے کہا کہ بامعنی مذاکرات کے لیے اطلاعات اور رابطوں میں مکمل شفافیت ضروری ہے۔
وزیراعظم کے اعلان اور مذاکراتی کمیٹی کی توسیع کے بیچ حکومتی سطح پر امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فوری طور پر حالات قابو میں لائے جا سکیں گے اور متاثرہ علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوامی مطالبات کے ممکنہ اور جلد حل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
حکومت نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی قانونی یا آئینی مسئلے کو قانون اور آئین کے مطابق حل کیا جائے گا اور ملنے والے سفارشات پر جلد از جلد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں