الفاشر (ویب ڈیسک ) الفاشر میں باغیوں اور فوج کی جو درندگی جاری ہے، اُس کا تصور بھی دل دہلا دیتا ہے، وہاں سے بچ کر آنے والے لوگوں کی کہانی سننے والوں کے کانوں میں مسلسل گونجتی ہے۔ سڑکوں پر مسلح گاڑیاں لوگوں کو گھیر کر مسلسل گولیاں برساتی ہیں، کچھ فوراً موت کے منہ میں چلے گئے تو کچھ کو ٹرکوں تلے کچلا گیا۔ جو بچ گئے، وہ خوفزدہ، زخمی اور اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی تلاش میں شہر سے دور بھاگے۔
ایک عینی شاہد نے ”رائٹرز“ بتایا کہ وہ شدید گولہ باری سے بچ کر بھاگ رہے تھے کہ اچانک آر ایس ایف کے ٹرکوں نے انہیں گھیر لیا۔ مشین گنوں سے اندھادھند فائرنگ کی گئی اور لوگوں کو گاڑیوں تلے روند دیا گیا۔
انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ”نوجوان، بزرگ، بچے سب کو کچل دیا گیا“۔ کچھ افراد کو گرفتار کر کے لے جایا گیا یا اغوا کر کے تاوان مانگے گئے۔
دوسرے عینی شاہد مبارک نے الفاشر کی ایک گلی میں ایک ساتھ پچاس یا ساٹھ لاشیں دیکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے فوجی گھروں میں گھس کر بے یار و مددگار لوگوں کو گولیاں مار دیتے ہیں، پھر اگلی گلی میں جا کر یہی سلسلہ دہرایا جاتا ہے۔ بہت سے بوڑھے اور زخمی وہیں اپنے گھروں میں رہ گئے اور مر گئے، ان کی چیخیں یا مدد کی آہٹ کہیں پہنچتی ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سربراہ وولکر ٹرک نے خبردار کیا ہے کہ الفاشر میں ہڑتالیں، اجتماعی فائرنگ، جنسی تشدد اور نسل پرستانہ بنیادوں پر تشدد جیسی ہولناک حرکات جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ کئی دنوں سے دنیا کا الفاشر سے رابطہ منقطع ہے، لوگ اندر پھنسے ہیں اور امدادی سامان کی رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
جو بچ نکلے، اُن کے فرار کے راستے بھی خطرناک ثابت ہوئے۔ کئی سفر خون آلود رہے، ہجوم مردوں کے غائب ہونے اور اغوا برائے تاوان کی کہانیوں سے بھرا ہوا تھا۔
اُم جُمعۃ اپنے نواسوں کے ساتھ الفاشر سے پہنچیں مگر اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کا پتا نہ چل سکا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ”جو مر ے نہیں تھے، اُنہیں دوبارہ مارنے کو کہا جاتا تھا، آوازیں آتیں ’ختم کر دو، ختم کر دو، یہ زندہ ہے، ختم کر دو‘




