غزہ پر دوبارہ بمباری: ٹرمپ کے داماد اور امریکی نائب صدر امن معاہدہ بچانے کے لیے اسرائیل روانہ

غزہ پر دوبارہ اسرائیلی بمباری کے بعد امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف غزہ امن معاہدہ بچانے کے لیے اسرائیل روانہ ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی وفد کا مقصد غزہ سیز فائر معاہدے کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانا اور فریقین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

دوسری جانب، حماس کے وفد کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جنگ بندی پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر مصری حکام کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ حماس کے رہنما اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ معاہدے کی شرائط پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔

جیرڈ کشنر نے اسرائیل روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”حماس اپنے وعدوں پر عمل کر رہی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ غزہ امن معاہدہ 100 فیصد کامیاب ہوگا۔ ہم اس کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔“

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا غزہ میں امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

قبل ازیں اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیوں کے دوران درجنوں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد جنگ بندی کے نفاذ پر پھر سے عمل درآمد شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔

یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتےہوئے حماس کے مبینہ اہداف پر سو سے زائد راکٹ حملے کیے جن کی اسرائیلی فوج نے تصدیق بھی کردی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں مزید 44 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
غزہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے نصیرات، جمالیہ اور رفح کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے کئی خاندان دب گئے۔

اسرائیلی حکام نے ان حملوں کو ”جوابی کارروائی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے حماس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے جواب میں کیے گئے۔

امریکی میڈیا کے مطابق، واشنگٹن نے اسرائیل کو حماس کے خلاف ”متناسب جواب“ دینے کی اجازت دی ہے اور اسرائیلی عسکری کارروائیوں کو ”دفاعی اقدام“ قرار دیا ہے۔ اس فیصلے نے عالمی سطح پر مزید تنازع پیدا کر دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ہاں، غزہ میں جنگ بندی اب بھی نافذ العمل ہے۔“ ان کے اس بیان نے عالمی حلقوں میں مزید الجھن پیدا کی ہے، کیونکہ اسی وقت اسرائیل کی بمباری سے درجنوں فلسطینی مارے جا رہے تھے۔

ذرائع کے مطابق جنگ بندی کی بحالی میں مصر، ترکی، قطر اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے ایک منظم طریقہ کار طے کرنے پر بات چیت جاری ہے، تاکہ کسی بھی مزید خونریزی کو روکا جا سکے۔

غزہ میں امن معاہدے کی کامیابی یا ناکامی ایک سنگین سوال بن چکا ہے۔ عالمی برادری کی نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ کیا امریکا، مصر اور دیگر عالمی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود غزہ میں پائیدار امن قائم ہو سکے گا یا اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ایک اور بحران جنم لے گا۔

اسرائیل کی بمباری اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں نے غزہ میں انسانی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ تک امدادی سامان کی فراہمی بھی روک دی ہے، جس سے اسپتالوں میں ایندھن اور ادویات کی کمی پیدا ہو گئی ہے اور بے گھر خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں