کیا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی عوام کو مزید بے وقوف بناتے رہیں گے؟
تحریر: ادارہ
بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے ایک اور معصوم جان نگل لی — سات ماہ سے اغوا شدہ مصور کاکڑ کو داعش کے دہشت گردوں نے بے دردی سے شہید کر دیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف مذمت کافی ہے؟
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی حکومت پچھلے سات ماہ سے مصور کی بازیابی کے لیے “سنجیدہ کوششیں” کر رہے تھے، جن سے مصور کے والد اور چچا بھی بخوبی واقف ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ کوششیں اتنی سنجیدہ تھیں تو ان کا نتیجہ ایک معصوم بچے کی لاش کیوں نکلا؟
بگٹی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ واقعہ میں ملوث کچھ دہشت گرد “جہنم واصل ہو چکے” ہیں اور کچھ کے گرد “گھیرا تنگ” ہے، جبکہ ریاستی مشینری حرکت میں آ چکی ہے۔ مگر یہ بیانات عوام کے زخموں پر مرہم بننے کے بجائے زخم کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں جہاں دعوے تو بلند ہوتے ہیں، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔
ماضی میں بھی کئی سانحات کے بعد اسی طرح کے بیانات دیے گئے، مگر مجرم اکثر بچ نکلے یا عوام کو صرف طفل تسلیاں دی گئیں۔ بلوچستان کے عوام یہ سوال اٹھانے پر حق بجانب ہیں کہ:
“کیا وزیر اعلیٰ صرف ایک بیان دے کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟”
مصور کاکڑ کی شہادت ایک المناک سانحہ ہے، اور اگر اس سانحے کو بھی صرف سیاسی بیانات سے کور کیا گیا تو عوام کا اعتماد حکومت سے مکمل طور پر اٹھ جائے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ میر سرفراز بگٹی اور ان کی حکومت جواب دیں — کتنی بار عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا؟