بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ؟ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات پر موقف قربان کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ؟

تحریر: [جاوید شاہ]

کوئٹہ —

بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان انسداد دہشت گرد اقدامات ایکٹ 1975ء میں ترمیم کا ایک بل پاس کیا ہے جس میں اس ایکٹ کے تحت فوجی ، نیم فوجی اور سویلین سیکورٹی فورسز و انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردی کے الزام ، سہولت کاری کرنے اور ان کی حمایت کرنے والوں کی بنا وارنٹ گرفتاری ، گھروں میں کاروائی کرنے اور ان الزامات کے تحت گرفتار ہونے والوں کو 90 روز تک کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے – اس ایکٹ کے تحت بلوچستان حکومت کو پہلے ہی اس ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں کے مقدمات کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اختیار حاصل ہے –

پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 1975ء میں قانون برائے انسداد دہشت گرد اقدامات بلوچستان نافذ کیا تھا – اس قانون کے تحت بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے اور انھیں 30 دن تک کسی عدالت میں پیش نہ کرنے کا اختیار دیا- اس ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں کے خلاف مقدمات کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا –
یہ اقدام اس وقت کیا گیا تھا جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی اکثر اراکین بشمول قائد حزب اختلاف سمیت 29 ممتاز سیاسی رہنماء پہلے ہی غداری ، ملک دشمنی، دہشت گردی اور بغاوت کے سنگین الزامات کے تحت قائم کیے گئے مقدمے میں حیدرآباد جیل میں بند تھے اور ایک سپیشل ٹربیونل کورٹ اس مقدمے کی سماعت کر رہا تھا – پنجاب کے معروف شاعر حبیب جالب بھی اس مقدمے میں گرفتار تھے –
نیشنل عوامی پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں ، ٹریڈ یونینز کے سینکڑوں کارکن ملک کی مختلف جیلوں میں بند تھے – پاکستان آرمی کے قائم کردہ مچھ میں ایک کیمپ الگ سے قائم تھا جس میں متعدد بلوچ ملک کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کے الزام میں بنا کوئی مقدمہ قائم کیے اور بنا فوج کی طرف سے ان کے حراست میں ہونے کی تصدیق کے بند تھے – ماورائے عدالت قتل کے متعدد واقعات رونما ہورہے تھے –
جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو انہوں نے بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سپیشل ٹربیونل ختم کردیا- حیدرآباد سازش کیس ختم کردیا گیا- مچھ ملٹری کیمپ ختم ہوا – بلوچستان ایکٹ برائے انسداد دہشت گرد اقدامات 1975ء کے تحت قائم مقدمات ختم اور گرفتار لوگ رہا کردیے گئے – جنھیں سزائیں سنائی گئی تھیں ان کی باقی سزا معاف کردی گئی – بلوچستان میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں ختم کردی گئیں اور یہ قانون بھی آئین کے ساتھ معطل کردیا گیا-

پیپلزپارٹی کی حکومت نے ہی سپیشل ملٹری ایکٹ میں ان ہی دنوں ترمیم کرکے ملٹری کورٹ میں ملک دشمنی میں ملوث اور فوجی و نیم فوجی فورسز اور تنصیبات پر حملے کے مبینہ شہری ملزمان کا ٹرائل کرنے کی اجازت دی گئی تھی –

سن 1997ء میں نواز شریف حکومت نے پارلیمنٹ سے انسداد دہشت گردی ایکٹ منظور کیا جس کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا ہوا تھا – اس ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ ہوا تھا یہ ایکٹ بنیادی طور پر بلوچستان انسداد دہشت گرد اقدامات ایکٹ 1975ء کا چربہ تھا –

اس وقت ملک میں اپوزیشن اتحاد جی ڈی اے نے اس ایکٹ کی شدید مذمت کی تھی اور اسے آئین پاکستان 1973ء کی روح کو مسخ کرنے والا قانون قرار دیا تھا- بے نظیر بھٹو نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسے نواز حکومت کا آمرانہ اقدام قرار دیا اور اس کا مقصد اپوزیشن ، پریس اور شہریوں کو خوفزدہ کرنا بتایا تھا –

سن 2013ء میں نواز حکومت کی سفارش پر صدر مملکت ممنون حسین نے تحفظ پاکستان آرڈیننس ۔۔۔۔پی پی او جاری کیا جس کے تحت سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو کسی بھی شخص کو 60 روز تک بنا کسی وارنٹ کے زیرحراست رکھنے اور کسی بھی عدالت میں اسے پیش نہ کرنے کا اختیار دیا – پاکستان پیپلزپارٹی نے اس آرڈیننس کو انسانی حقوق اور شفاف ٹرائل کے منافی قرار دیتے ہوئے کالا اور آمرانہ آرڈیننس قرار دیا اور جب حکومت نے اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرانے کی کوشش کی تو دونوں ایوانوں کی کاروائی کا اس کے اراکین اسمبلی و سینٹرز نے بائیکاٹ کیا – 3 سال کے لیے یہ ایکٹ نافذ العمل رہا اور 2016ء میں یہ قانون ختم ہوگیا اس کی توسیع خود نواز لیگ نے نہیں کی –

آج بلوچستان اسمبلی میں پی پی اے سے بھی زیادہ سخت ترامیم کے ساتھ بلوچستان ایکٹ برائے انسداد دہشت گرد اقدامات ایکٹ کے ترمیمی بل کو پاس کیا گیا تو اس صوبے کے چیف منسٹر سرفراز بگٹی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے اور پیپلزپارٹی اس اسمبلی کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے –

پیپلزپارٹی جس کی چھوٹی بڑی قیادت کے نزدیک کسی شخص کی 60 دن تک بنا وارنٹ کے گرفتاری اور عدالت میں پیش نہ کرنے کا اقدام 1973ء کے آئین کی روح کے منافی ، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شفاف ٹرائل کے منافی قانون سازی تھی اور آمرانہ اقدام تھا وہ بلوچستان میں قانون کی بالادستی ، بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کا قانونی راستا قرار پا گیا ہے –

پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے فوجی اسٹبلشمنٹ کے آرزوؤں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنے جمہوریت پسند موقف اور ضمیر کی آواز کو دفن کرنا بہتر سمجھا ہے – اس سے قبل وہ انسداد سائبر کرائمز ایکٹ – پیکا ایکٹ پر اپنے جمہوری موقف سے منحرف ہوتے ہوئے اس ایکٹ کے زیادہ غیر جمہوری آمرانہ ترمیمی بل کے مسودے کے حق میں ووٹ دے چکی ہے-

اس قیادت نے 1975ء میں بلوچستان کے عوام کے خلاف کی جانے والی فسطائی قانون سازی کو اور زیادہ فسطائی ترامیم کے ساتھ منظور کرایا ہے – وہ موجودہ فوجی قیادت کے آمرانہ، فسطائی ، جابرانہ اور ریاستی جبر کو قانونی تحفظ دینے کے جرم میں شریک ہورہی ہے – اس قیادت کو نہ تو ملک میں جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے حلقوں کی تشویش اور تنقید کی پرواہ ہے اور نہ ہی اپنی پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی شدید تنقید اور تحفظات کی پرواہ ہے – وہ ایک طرف تو موجودہ حکومت کے تمام تر عوام دشمن معاشی اقدامات اور پالیسیوں کے باوجود اس کی بیساکھیاں بنی ہوئی ہے تو دوسری جانب اس ہائبرڈ رجیم کے آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، بلوچستان اور کے پی کے میں جاری ریاستی جبر اور حقوق کی تحریکوں کے کارکنوں اور حامیوں کی ناجائز گرفتاریوں پر خاموش ہے – وہ پنجاب میں اپنی صوبائی قیادت کے اس اعتراف کہ پنجاب میں عوام انھیں نواز لیگ کی عوام دشمن پالیسیوں پر آواز اٹھانے کی بجائے اس کی حکومت کے اتحادی ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں دے رہے کے باوجود اس رجیم سے چمٹی ہوئی ہے –

پیپلزپارٹی کا یہ عذر کہ وہ “نظام ” بچانے کے لیے نواز لیگ کا ساتھ دے رہی عذر لنگ بن کر رہ گیا وہ اس سے سوال کرتے ہیں کہ کون سا نظام ؟ وہ جو عوام سے ان کے بنیادی جمہوری ، آئینی اور انسانی حقوق سلب کر رہا ہے ؟ ان ترامیم کے لیے جو خود اس پارٹی کی قیادت کی نظر میں آمرانہ اور 1973ء کے آئین کی جمہوری روح کے منافی ہیں – پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے –

اپنا تبصرہ بھیجیں