کوئٹہ (پ ر) ایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان کا اجلاس زیر صدارت حاجی غفار لانگو منعقد ہوا۔اجلاس کو سیکرٹری جنرل مرتضیٰ ترین نے صنعت کو درپیش مسائل کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اجلاس میں آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے مرکزی صدر،انجمن اخبار فروشاں کے جوائنٹ سیکرٹری میر احمد راسکوہ وال نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے کے پرنٹ میڈیا کو درپیش مسائل پر تفصیلی بات چیت کی گئی،
شرکاء نے اخبارات کے اشتہارات کو BPPRA کی سائٹ پر آویزاں کرنے کے اقدامات کو صوبائی پریس دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت روایتی اور مستند صحافت کا گلہ گھونٹ کر بزور طاقت صحافتی اداروں کو بند کرنا چاہتی ہے،اجلاس کے شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ تجاویز طلب کرنے کی غرض سے محکمہ تعلقات عامہ میں ہونیوالے اجلاس میں اکثریتی سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کیا گیا۔
چند عناصر اپنے ذاتی مقاصد کیلئے صوبائی حکومت سے غلط اقدامات کرانے، حکومت اور صوبائی پریس کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔اجلاس کے شرکاء نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کا بہ جنبش قلم صوبے کے ہزاروں لوگوں کو بیروزگار اور پوری صنعت کو تباہ کرنا کوئی عقل مندی کا فیصلہ ثابت نہیں ہوگا ایسے فیصلے کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آل پاکستان اخبار فروش فیڈریشن کے مرکزی صدر،انجمن اخبار فروشاں کے جوائنٹ سیکرٹری میر احمد راسکوہ وال کا کہنا تھا کہ صوبے کے اخبارات خود کو تنہا نہ سمجھیں ہم نے ہمیشہ صوبائی پریس کی اولیت کی بات کی ہے۔ ہر کڑے وقت میں انجمن اخبار فروشاں صوبائی پریس کے شانہ بشانہ کھڑی رہی اور آئندہ بھی اپنی روایات کو قائم رکھے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت صوبے کے اخبار فروشوں کیساتھ بھی ہمیشہ ہاتھ کرجاتی ہے ہمارے فنڈز طویل مدت سے جاری نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے مسائل کے انبار لگ چکے ہیں۔ اس موقع پر ایکشن کمیٹی کے اراکین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انجمن اخبار فروشاں کے مسائل پر مدیران بھی انکے ہم آواز ہونگے۔
اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت انتہائی عجلت میں اہم فیصلے حقیقی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیئے بغیر کرنا چاہتی ہے اور صوبائی اشتہارات اور اخباری صنعت سے متعلق کسی فیصلے سازی کا اولین حق مقامی اخباری صنعت کا ہے،ایکشن کمیٹی اخباری صنعت بلوچستان کے اراکین نے واضح کیا کہ پرنٹ میڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ہم ہر اس فیصلے کی مخالفت کاحق محفوظ رکھتے ہیں جس میں ہمیں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود نظر انداز کیا جائے۔اجلاس نے مطالبہ کیا کہ نہ صرف صوبائی پرنٹ میڈیا کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے بلکہ وفاقی حکومت کے طرز پر حکومتی تشہیر کیلئے الگ سے فنڈز قائم کئے جائیں۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ معاملات سنگین ہوچکے ہیں حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ شرکاء نے عزم کا اعادہ کیا کہ کسی صورت پرنٹ میڈیا کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا آخری حد تک مزاحمت کی جائے گی۔ اجلاس کے شرکاء کی تجاویز کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا۔اجلاس میں رابطوں کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیدی گئیں جو حکومتی ذمہ دارن،اخباری مدیران،پارلیمانی اراکین،سیاسی و سماجی رہنماؤں سے رابطے کریں گی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا صوبائی،قومی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں کیساتھ رابطے کرکے اس مسئلے کو مزید اجاگرکیا جائے گا اور کسی بھی ایسے فیصلے کو قبول نہیں کیا جائے گا جس سے آزادی صحافت پر حرف آئے،شرکاء کا مطالبہ تھا کہ حکومت فوری طور پر اخباری صنعت کو درپیش تحفظات دور کرے اور اخبار مارکیٹ کو درپیش مالی مشکلات فوری حل کرے۔
اجلاس کے شرکاء میں میر احمد راسکوہ وال، رضوان علی ہاشمی، مدثر ندیم، حاجی غفار لانگو، مرتضیٰ ترین، حکیم اکمل، سہیل جلال، منیر احمد بلوچ، عبدالحبیب کاکڑ، دانیال ترین، نعمت اللہ کاکڑ، آغا عبید، عمران خان جمالی، نعیم اختر، سلمان مرزا،ریاض احمد شاہوانی، آغا محمد بلوچ،محمد وسیم سرپرہ، بہادر خان لہڑی،فاروق لہڑی،ملک صادق بنگلزئی،سمیع اللہ رند، محمد کریم بلوچ،ظفر ذیشان، عابد شاہ،لیاقت لانگو،ظہیر میر رند،سعید احمد،نسیم ارسلان،عارف رانا، ریاض احمد، فرید خان،نعیم خان کاکڑ و دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔