کوئٹہ: یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے، ہم کوششوں کے باوجود نتیجے پر نہ پہنچ سکے
کوئٹہ: بچے کی بحفاظت بازیابی پر ناکامی پر پولیس کو دکھ اور افسوس ہے
کوئٹہ: اغواء ہونے والے مصور خان کاکڑ کی لاش برآمد ہونے کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی
کوئٹہ (اولس نیوز اپڈیٹ)ڈی آئی جی اعتزاز احمد گورایہ نے ترجمان حکومت بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
-
کوئٹہ 15 نومبر کو مصور خان کو اغوا کیا گیا۔
-
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے نوٹس لیا، جس پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔
-
اس جے آئی ٹی میں پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے افسران شامل تھے۔
-
جے آئی ٹی کی 19 میٹنگز ہوئیں۔
-
دو ہزار رہائشی اور 1200 کرایہ کے گھروں کو سرچ کیا گیا۔
-
17 نومبر کو اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی برآمد کی گئی۔
-
مصور کے اغوا میں کالعدم تنظیم داعش ملوث تھی۔
-
اغوا میں ملوث تین افراد میں سے دو افغانی شہری نکلے۔
-
مستونگ میں سی ٹی ڈی نے آپریشن کیا، جس میں ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
-
سرچ آپریشن کے دوران اسپلنجی میں داعش کیمپ پر حملے کے بعد بچے کو شہید کیا گیا۔
-
23 تاریخ کو بچے کی لاش اسپتال منتقل کی گئی، جس کی شناخت ڈی این اے رپورٹ سے ہونی تھی۔
-
ڈی این اے کے نمونے لاہور بھجوائے گئے، جہاں سے تصدیق ہوئی کہ لاش مصور خان کی ہی ہے۔
-
بچے کی بازیابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے۔
کوئٹہ (اولس نیوز اپڈیٹ)
کوئٹہ شہر سے 15 نومبر 2024 کو اغوا ہونے والے حافظ قرآن مصور کاکڑ کی لاش اسپلنجی مستونگ سے برآمد کرنے کا حکومتی دعویٰ سامنے آیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ برآمد ہونے والی لاش مصور خان شہید کی ہے، اور لاش کی ڈی این اے رپورٹ موصول ہو چکی ہے۔ ان حالات میں حکومت اور لواحقین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تاکہ لواحقین کو احتجاج سے روکا جا سکے۔
گزشتہ سال پندرہ نومبر کو کوئٹہ شہر سے اغوا ہونے والے چھوٹے بچے مصور خان کی چار دن قبل لاش ملنے کی خبر کنفرم ہوگئی۔ انتہائی باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مستونگ اسپلنجی سے ملنے والی چھوٹے بچے کی ڈیڈ باڈی مصور خان کی تھی جوکہ پرانی ہونے کے باعث مسخ چکی تھی۔ مصور خان کے لواحقین میں شامل ایک شخص نے انتہائی رازداری سے بتایا ہے کہ سرکار نے ہمیں جو ڈیڈ باڈی دی ہے، ظاہری صورت سے مصور خان ہی لگتی تھی لیکن ہم نے سرکاری اعلیٰ احکام کو بتایا کہ ڈیڈ باڈی کی ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے بعد خود مصور خان کی شہادت کا اعلان کریں۔
واضح رہے کہ مصور خان کے اغوا کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی اور بھاری تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت ایک اعلیٰ سرکاری وفد لواحقین سے مذاکرات کررہا ہے تاکہ ان کو حکومتی اقدامات سے راضی کیا جائے اور مصور خان کی لاش برآمدگی کی کہانی سے قائل کیا جائے۔
اس سے پہلے حکومتی اہلکاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپریل میں مستونگ اسپلنجی میں دہشت گرد تنظیم کے خلاف آپریشن میں مصور خان بھی شہید ہوگئے تھے۔ بعد میں بولان مچھ میں آپریشن میں مارے گئے دہشت گرد کے موبائل کی فرانزک کے دوران مصور خان کی لاش کی تصویر ملی تھی اور جگہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پھر اس مقام سے مصور خان کی لاش برآمد کی گئی جوکہ تین ماہ پرانی ہونے کی وجہ سے مسخ چکی تھی۔
ڈی این اے رپورٹ مثبت آنے کے بعد اس وقت لاش کی تدفین کا معاملہ سنگین شدت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری جانب مصور خان شہید کی لاش آٹھ مہینے کے بعد ملنے پر علاقے میں شدید غم و غصے کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عوام حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کررہے ہیں۔