بلوچستان اسمبلی کی سیاست ایک بار پھر تماشہ بنی، جب ایک ہی رکنِ اسمبلی—زاہد ریکی—نے دو ایسے عمل کیے جنہیں کسی طور سنجیدہ سیاسی رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ پہلے انہوں نے اسمبلی کے فلور پر “احتجاجاً” قمیض اتاری، گویا یہ عمل صوبے کی تباہ حال معیشت، بےروزگاری، بدامنی یا پسماندگی کا کوئی حل ہے۔ پھر اسی وزیر اعلیٰ کے خلاف، جس پر اعتراض کرتے ہوئے وہ یہ علامتی احتجاج کر رہے تھے، بجٹ اجلاس کے دوران جا کر ہار پہنا دیا۔ کیا یہی ہے بلوچستان کی سیاست؟ کیا یہی ہے نمائندگی کا معیار؟
قمیض اتارنے جیسے افعال عوامی مسائل کا حل نہیں، بلکہ ایک سطحی اور غیر سنجیدہ رویے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسمبلی جیسے ادارے میں اس نوعیت کا احتجاج، نہ صرف ادارے کے وقار کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ احتجاج کا مقصد پالیسی پر اعتراض نہیں بلکہ محض توجہ حاصل کرنا تھا۔
اور اگر واقعی قمیض اتارنا “وزیر اعلیٰ کے خلاف احتجاج” تھا تو پھر اسی وزیراعلیٰ کو سرِ عام ہار پہنانا محض خوشامدانہ سیاسی قلابازی ہے—جو اس احتجاج کو ایک بے وقعت ڈرامے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ زاہد ریکی کا مسئلہ اصول نہیں، موقع ہے؛ مقصد عوام کی ترجمانی نہیں، ذاتی مفاد ہے۔
ایسا رویہ صرف انفرادی طور پر ایک رکن اسمبلی کی ساکھ کو مجروح نہیں کرتا بلکہ مجموعی طور پر بلوچستان اسمبلی کی وقعت، اپوزیشن کی سنجیدگی اور عوام کے اعتماد کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں لوگ اپنے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت اور امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان کے نمائندے اگر اسمبلی کو سرکس میں بدل دیں تو عوام کہاں جائیں؟
سیاست تماشہ نہیں ذمہ داری ہے۔ اگر ہر اختلاف کا اظہار کپڑے اتار کر کیا جائے اور ہر بجٹ پر خوشی کا اظہار ہار پہنا کر ہو تو نہ اصول بچے گا نہ وقار۔ اپوزیشن کا کام حکومت کو جواب دہ بنانا ہوتا ہے، نہ کہ اسی حکومت کے گلے میں ہار ڈال کر اپنی سیاسی کمزوری کو خوشامد میں چھپانا۔
زاہد ریکی جیسے نمائندوں سے عوام کو یہ پوچھنے کا پورا حق ہے کہ “کیا آپ کا موقف برائے فروخت ہے؟ کیا آپ کا احتجاج محض ایک اداکاری تھی؟”
بلوچستان کو اداکار نہیں، کردار والے لیڈر چاہییں—جو نہ قمیض اتار کر تماشہ بنیں اور نہ ہار پہنا کر بےنقاب ہوں۔