پانچ لاکھ کے قریب آبادی والے شہرچمن میں خواتین صحافت سے دور کیوں؟

پانچ لاکھ کے قریب آبادی والے شہر چمن میں ایک بھی خاتون صحافت کا آغاز کیوں نہ کر سکیں۔

سب ہیڈ لائن
تنگ نظری، معاشی استحصال اور صوبے کے معروضی حالات خواتین صحافیوں کے لئے دوستانہ ماحول فراہم نہیں کرتے جسکی وجہ سے بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

رپورٹ:سید ضیاء آغا

بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے شورش زدہ رہا یہاں بلوچ عسکریت پسند، مذہبی شدت پسند مسلسل کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایک پسماندہ اور قدامت پسند صوبہ ہے جہاں خواتین صحافیوں کے لئے کام کرنا آسان نہیں جسکی بڑی مثال خواتین کا صحافت میں نہ ہونے کے برابر ہونا ہے۔

ایسی ہی کہانی ہے آصفہ کی آصفہ نے اپنی بہن عارفہ سمیت اس ارادے سے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر قائم جامعہ بلوچستان میں داخلہ لیا کہ وہ مستقبل میں صحافت کے پیشے کا آغاز کرکے خواتین کے مسائل اجاگر کریں گی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

وجوہات بتاتے ہوئے آصفہ کہتی ہیں کہ”مجھے صحافت میں آنے کا بے حد شوق تھا جیسے ہی ہم نے اپنی صحافت کی تعلیم مکمل کی تو گھر کی جانب سے عملی صحافت میں کام کرنے کی اجازت نہیں مل سکی۔”

انکے مطابق صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اپکو رپورٹنگ کے لئے مردوں کے درمیان اور رش والی جگہوں پر جانا پڑتا ہے، ایسے میں کسی خاتون کا کام کرنا آسان نہیں۔ دوسری طرف صوبے کے حالات سب کے سامنے ہیں، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کو کور کرنے کی اجازت گھر سے کہاں ملے گی؟ آصفہ نے مایوسی میں سوال پوچھا۔

یونیورسٹی آف بلوچستان میڈیا سٹڈیز کے پروفیسر خلیل دمڑ کہتے ہے کہ ہر علاقے کی اپنی ایک ثقافت ہوتی ہے۔ چمن کا قدامت پسند معاشرہ اکثر خواتین کو صحافت کی اجازت نہیں دیتا۔

خلیل دمڑ کہتے ہیں کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے جسکی وجہ سے خاتون صحافی ایک شہر سے دوسرے شہر تک بھی سفر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خاتون صحافت کے شعبے میں آبھی جائے تو صوبے کے معروضی حالت کے پیش نظر انکے لئے صحافت کے شعبے میں نوکریوں کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔

انکے مطابق دیہی علاقوں اور بالخصوص چمن شہر میں خواتین صحافیوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں ایسے مسائل بھی ہوتے کہ وہاں گھروں میں کوئی مرد صحافی نہیں جاسکتا جبکہ ایک خاتون صحافی تحقیقاتی رپورٹ کے لئے جا سکتی ہے مثلا اگر کسی خاتون کا کوئی ایسا مسئلہ ہوتا ہے یا اسکے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو وہ مرد کی نسبت اپنا مسئلہ خاتون کو آسانی سے بتا اور سمجا سکتی ہے۔

اسی لئے ایک خاتون صحافی کا ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے بد قسمتی سے نا ہی صحافتی حلقوں اور نا ہی سرکاری سطح پے توجہ دی گئی ہے کہ وہاں پے میڈیا آوٹ لیٹس کو بڑھائے خواتین کو کورس کرائیں انکی حوصلہ افزائی کریں۔

چمن ایک جنگ زدہ علاقہ بھی رہا ہے اگر کوئی خاتون صحافی ایک جنگ زدہ علاقے میں صحافت کرتی ہے تو یہ بہت ہی بہتر ہوگا کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بہت ساری خواتین صحافی جو دیگر ممالک سے آتی ہے وہ مردوں کی نسبت آسانی سے جنگ زدہ علاقوں میں تحقیقاتی رپورٹس بناتی ہے اور اس علاقے کو کوور کرتی ہے اسکی سب سے بڑی مثال افغانستان کی ہے کہ وہاں کس طرح خواتین صحافیوں نے کوور کیا۔

جامعہ بلوچستان کے شعبہ صحافت کے لیکچرر خلیل دمڑ کے مطابق شعبہ صحافت میں اس وقت لگ بھگ 20 سے زائد طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں اکثریت کو خدشہ ہے کہ وہ عملی صحافت نہیں کر سکیں گی۔

بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد بنتا ہے، اس صوبے کی آبادی ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ہے۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پسماندہ ہے۔ یہاں دو دہائیوں سے شورش ہے، بلوچستان کے کم از کم 42 صحافی ابتک مختلف بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مارے جا چکے ہیں۔

چمن پریس کلب میں 40 صحافی رجسٹرڈ ہیں جن میں ایک بھی خاتون صحافی نہیں جبکہ صوبے کے سب سے بڑے کوئٹہ پریس کلب میں 200 سے زائد صحافی رجسٹرڈ ہیں جن میں خواتین صحافیوں کی تعداد صرف چار 4 ہے۔

چمن شہر کے سینئر صحافی نور زمان اچکزئی کے مطابق چمن میں خاتون صحافی کا نا ہونے کی بڑی وجہ چمن کا قبائلی معاشرہ ہے۔ یہاں اکثر خواتین نوکری نہیں کرتیں۔

چمن بارڈرنگ ریجن ہے اور یہ اکثر تنازعات کا شکار رہا ہے ایسے شہر میں مردوں کے لئے صحافت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے تو ایسے میں خاتون کا صحافت کرنا۔ یہاں مخلتف ادوار میں صحافیوں پر پرچے بھی کئے گئے ہیں۔ یہاں صحافت ملک کے دیگر حصوں کی نسبت مشکل ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لوگ اپنی بچیوں کو دسویں تک تعلیم نہیں دیتے تو کہاں وہ اپنی بچیوں کو صحافت کی ڈگری لینے کے لئے یونیورسٹی بھیجیں۔ حساس معاشرے میں خاتون کیسے بازار یا پھر تقریب کو کو کور کریں گیں؟

افنان شاہ جامعہ بلوچستان کے شعبہ صحافت میں ساتویں سیمسٹر کی طالبہ ہیں۔ انکے مطابق خواتین کو دپیش مشکلات صرف صحافت میں نہیں ہے ہر کام میں ہوتی ہیں۔ لیکن بلوچستان جیسے صوبے میں خواتین کے لئے صحافت میں کام کرنا زیادہ ہی مشکل ہوسکتا ہے۔

اگر کوئی خاتون صحافی سڑک یا پھر رش والی جگہوں پہ کام کریں تو انہیں ٹھیک نہیں سمجھا جاتا، جس سے خواتین رپورٹرز کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

افنان کے مطابق خواتین کو نیوز چینلز میں مستقل جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔ “میں اگر اپنا تجربہ پیش کروں تو اپنا سٹاف ہراساں کرتا ہے جو کہ معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔”

فریدہ ہزارہ نے حال ہی میں صحافت کے شعبے میں بی ایس کی ڈگری مکمل کی ہے۔ وہ گھر سے بطور فری لانسر کام کرتی ہیں۔

فریدہ کے مطابق جب کوئی خاتون صحافت شروع کرتی ہے تو معاشرہ اسے معیوب سمجھتا ہے۔ ان کے لئے صحافت شروع کرنا بڑا مایوس کن رہا۔

بڑے اداروں تک جانے کے لئے اچھا تجربہ اور پروفائل چاہئے ہوتی کوئٹہ میں خواتین کو مواقع فراہم نہیں کئے جاتے جسکی وجہ سے اکثرو طالبات ڈگری کے مکمل ہونے پر صحافت شروع نہیں کر پاتیں۔

“فیلڈ میں موجود صحافی اپنے من پسند لوگوں کے علاوہ کسی کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم نہیں کرتے۔” اگر کسی خاتون کو چھوٹے چھوٹے چینلز پر ہی کام نہ دیا جائے یا پھر یہیں روک دیا جائے تو بڑے اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع کیسے ملیگا۔”

یونیورسٹی آف بلوچستان کے جینڈر ڈویلپمنٹ سٹڈیز کی چئیر پرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ حبیب علی زئی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ پشتون بلوچ قبائل کی ثقافت پدرسری رہی ہے ۔ اسی وجہ سے عورت کو زندگی کی تمام شعبوں میں برابری حاصل نہیں اور صحافت انسان کو بولنے کی طاقت دیتا ہے اگر عورت صحافی بن کر میدان میں آکر عورتوں کی مسائل پر رپورٹ بنائے گی تو اس کو خطرہ سمجھ کر کیریکٹر اساسینیشن کیا جائیگا اور اسے مفت مشورہ دیا جائیگا کہ عورت کی زبان کنٹرول میں رکھنی چاہیے؛ تم عورت بنو اور گھر سنبھالو صحافت تمہارے لیے ٹھیک نہیں ۔

پروفیسر علی زئی کا کہنا ہے کہ صحافی حلقے بھی لڑکیوں کی صحافت کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ عورت کو انکی سیٹوں پر آنے والی مد مقابل سمجھتے ہیں اور چونکہ عورت عورتوں کی مسائل پر بہترین انداز میں لکھ سکتی ہے جو کہ مرد نہیں لکھ سکتے تو اس وجہ سے یہ پروفیشنل جیلسی بھی ایک عنصر ہے جس کی وجہ سے عورتیں بلوچستان اور پاکستان کی صحافت میں برابر کے شریک نہیں۔

بلوچستان کی پہلی خاتون بیورو چیف کے بقول خواتین کے لئے رپورٹنگ کے دوران ماحول دوستانہ نہیں ہوتا۔

بلوچستان کی پہلی خاتون بیورو چیف صحافی بشرہ قمر بلوچستان کے کشیدہ صورتحال کو خواتین صحافیوں کے لئے ایک اہم چیلنج سمجھتی ہیں۔
بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے جہاں خواتین کو بڑی مشکل سے فیلڈ میں کام کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ جب انکو فیلڈ یا دفاتر میں ہراساں کیا جائے تو وہ گھر اور معاشرے کی سختی کی وجہ سے کسی سے شکایت بھی نہیں کر سکتیں۔ شکایت کرنے سے انہیں گھر کی طرف سے کام سے روکا جاسکتا ہے اور نئی خاتون صحافیوں کے لئے بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

بشرہ کے مطابق “چمن ایک قبائلی شہر ہے، قدامت پسندی کی وجہ سے خواتین کے لئے چمن میں صحافت کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے خود بھی چمن میں دوران رپورٹنگ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔”

بشرہ قمر یہ شکوہ کرتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو مرد صحافیوں کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے جہاں سے خواتین صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، اور تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت ٹھیک سے کام نہیں کر پاتیں۔

اکثر اوقات خواتین صحافیوں کے لئے ماحول دوستانہ نہیں ہوتا۔ الگ سے واش روم کی سہولت نہیں ہوتی، اور اگر کوئی خاتون صحافی تھک جائے اور تھوڑی دیر آرام کرنا چاہے تو ان کے لئے ایسے ایسا ماحول نہیں ہوتا کہ آرام تک کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں