سہیل آفریدی نئے وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا منتخب، گورنر کے حلف برداری سے انکار

سہیل خان آفریدی 90 ووٹ لے کر نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا منتخب ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے 73 ووٹ درکار تھے، جب کہ سہیل آفریدی نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمان، پیپلزپارٹی کے ارباب زرک اور ن لیگ کے سردار شاہجہاں میدان میں تھے۔
سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے کامیابی کی سمری گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو کو بھیج دی، جس میں کہا گیا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لیا جائے۔

سمری کے متن میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا عمل مکمل ہوگیا ہے، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے 90 ووٹ حاصل کیے جب کہ دیگر 3 امیدواروں نے کوئی ووٹ بھی حاصل نہیں کیا، نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے آئین اور قانون کے مطابق حلف لیا جائے۔

دوسری جانب نومنتخب وزیرِ اعلیٰ کے حلف کے لیے پی ٹی آئی نے حکمت عملی تیار کرلی ہے، جس کے تحت آج ہی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رابطہ کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے وزیرِ اعلیٰ کی حلف برداری کے لیے رٹ پٹیشن کی تیاری کا عمل شروع کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل رٹ پٹیشن تیار کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ گورنر نے حلف لینے سے انکار کیا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

سہیل آفریدی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے چوتھے وزیراعلیٰ ہیں، ان سے قبل پرویز خٹک، محمود خان اور علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں۔

پیر کو نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس کی صدارت اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کی ۔ اجلاس کے آغاز میں علی امین گنڈاپور نے ایوان سے خطاب کیا۔ جبکہ اپوزیشن نے انتخابی عمل کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان کے انتخاب کے موقع پر آج کا اجلاس شدید ہنگامہ خیزی کا شکار رہا۔ اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور، ارکانِ اسمبلی اور حزبِ اختلاف کے درمیان گرماگرمی دیکھی گئی۔
دوسری جانب، اسمبلی میں ڈاکٹر عباداللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آئین میں استعفیٰ منظور کرنے کا ایک واضح طریقہ کار ہے، آج مجھے گورنر ہاؤس سے خط موصول ہوا ہے جس میں واضح کیا گیا کہ علی امین گنڈاپور دو بار استعفا دے چکے ہیں۔‘

ڈاکٹر عباداللہ کے خطاب کے دوران تحریک انصاف کے ارکان کی نعرے بازی شروع ہوگئی، جس پر اسپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ لوگ کون ہوتے ہیں کسی رکن کو بولنے سے روکنے والے؟ مجبور نہ کریں کہ آپ سب کو ایوان سے باہر نکال دوں۔‘

اس کے بعد ڈاکٹر عباداللہ نے مزید کہا کہ ؛’علی امین گنڈاپور اگر اتنی اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے تو انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ ایک حکومت کے ہوتے ہوئے دوسری وزارتِ اعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی ہے، ہم اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔‘

گورنر نے علی امین گنڈاپور کا استعفا واپس کردیا
دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفا اعتراض لگا کر واپس کردیا ہے۔ گورنر کی جانب سے جاری خط میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ علی امین گنڈا پور کے نام سے جمع کرائے گئے دونوں استعفوں پر دستخط مختلف اور غیرمشابہ ہیں، اس لیے ان کی تصدیق ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے گورنر نے علی امین گنڈا پور کو 15 اکتوبر دوپہر تین بجے گورنر ہاؤس طلب کیا ہے۔

گورنر فیصل کریم کنڈی نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبے میں آئینی اور جمہوری عمل کو شفاف رکھنے کے لیے استعفے کی باقاعدہ تصدیق ناگزیر ہے۔

تاہم علی امین گنڈا پور نے سوشل میڈیا پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ دونوں استعفوں پر ان کے مستند دستخط موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں